تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی گراوٹ

تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی گراوٹ
قوم مسلم کی زبوں حالی کو دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار ذہن میں آتاہے ؎ حیرت ہے کہ تعلیم وترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوتھا آج ہندوستانی مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں،اس کے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں لیکن میرے ذہن میں ان میں سب سے بڑی وجہ ہماری تعلیمی گراوٹ ہے اس سال کے یو،پی،ایس، سی کا نتیجہ بھی ہمارے لیے خوش آئند نہیں تھا کیوں کہ صرف ٢٩ مسلم طلبہ کا انتخاب قوم مسلم کے لیے کوئی خوش کن بات نہ تھی بنسبت گذشتہ سالوں کے نتائج کچھ حد تک ٹھیک ٹھاک بھی تھے کیوں کہ ٤٠یا ٥٠ کے قریب منتخب ہوجایا کرتے تھے لہذا اب ہمیں اپنے اندر بیداری لانے کی سخت ضرورت ہےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری تعداد دیگر قوموں کی بنسبت بہت کم ہےاور یہ شاعری نہیں بلکہ امر واقع ہے جس کی واضح دلیل سچر کمیٹی کی رپورٹ ہے اس کے مطابق کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینے والوں طلبہ میں سب سے کم تعداد مسلم طلبا کی ہے اسی طرح ٤٣/ فیصدمسلم بچے تو کالج کا تو منھ تک نہیں دیکھتے اور جو آتے بھی ہیں ان میں بہت زیادہ بیچ ہی میں تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں۔حیرت دو چند ہوجاتی ہے کہ جس قوم کے مقدس کلام کی پہلی آیت "اقرأ” ہے آج اسی کے فرزندان اس میدان میں سب سے پیچھے ہیں نیز سیلف اسٹڈی میں بھی سب سے کم وقت صرف کرنے والے ہیں چناچہ اس امر کی واضح ثبوت یونیسکو کا ہیومن ڈولپمنٹ رپورٹ(٢٠٠٣) ہے جسے کے مطابق ایک مسلم شخص سال میں صرف ایک یا اس سے کم کتاب مطالعہ کرتا ہے جب کہ ایک یوروپین شخص سال میں ٣٥/کتابیں پڑھ لیتا ہے اسی طرح سے سے ایک اسرائیلی شخص سال میں کم سے کم ٤٠/ کتابیں مطالعہ کر لیا کرتا ہے۔
یونہی عرب تھاوٹ کی کلچرل ڈولپمنٹ کی رپورٹ پر جب نظر پڑی تو کئی دنوں تک سوچنے پر مجبور ہوگیاکہ قوم مسلم کا اتنا برا وقت آگیا ہے! اس کے مطابق ایک یوروپین شخص سال میں اوسطا دو سو گھنٹہ مطالعہ کرتا ہے جب کہ ایک مسلم صرف ٦/ منٹ ۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ جس قوم کی کی ابتدا "پڑھو” سے ہوئی تھی آج وہی زوال کے دہانے پہ کھڑا ہے جس قوم کے لوگوں کو آج کتابوں کے ورق پلٹتے ہوئے نظر آنا چاہیے تو وہ آج سوشل میڈیا اور ہوٹلوں کے کے مچان پہ اپنا قیمتی وقت برباد کرت ہوئے نظر آتے ہیں۔اور اگر کچھ مسلم طلبہ کالجز میں ہیں بھی تو ان میں اکثر کے پاس کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا اور خود کو تضیع اوقات میں لگا دیتے ہیں لڑکے لڑکیوں کے چکر میں اور لڑکیاں لڑکوں کے چکر میں اپنے آباد مستقبل کو برباد کرتے رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج سول سرویسیز میں مسلمانوں کی تعداد صر٣/فیصد ہے۔اور انڈین ریلوے میں صرف ساڑھے چار فیصد ہے۔آخر ایسا کیوں ہے ہماری حالت تو دلتوں سے بھی ابتر ہےاس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کے میدان میں پیچھے رہنا ہے دلتوں کو تو چھوا چھوت جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑالیکن ہمیں کس چیز نے تعلیم سے روکا ؟آج اگر کالجز کے لائبریری کے باہر گپ شپ میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو وہ مسلم طلبہ ہیں۔لہذا والدین کو اپنے اولاد پہ کڑی نظر رکھنے اور انہیں اعلی تعلیم دینے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا نام و نشان بھی تک باقی نہیں رہے گا۔