Opinion مَشْوَرَہ ، خَیَالْ

طاغوتی طاقتیں اور سرکشی مملکتوں کو پیغام؟

Advertisement

طاغوتی طاقتیں اور سرکشی مملکتوں کو پیغام؟

عالمی پیمانے پر پھوٹ کر ہر سمت واہی تباہی مچانے والی یہ "کورونا وائرس” نامی ایسی مہلک بیماری ہے جو ماہرین امراض اور حالات شناس افراد کے مطابق اب تک کی سب سے زیادہ ہَلاکت خیز وَباء ثابت ہو رہی ہے۔
حالانکہ وبائیں پہلے بھی آتی تھیں، مگر ان کا اثر اور ہلاکت خیزی اس طرح عالمی سطح پر منتج نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کا دائرۂ اثر کسی ایک خطہ علاقہ اور ملک تک ہی محدود ہوتا تھا اور وہاں کی حکومتیں ان سے نمٹنے اور انسانی معاشرے پر اس کے اثرات کم سے کم مرتب ہوں اس کےلئے بروقت کاروائی کرتیں اور مختلف طور طریقے ا پنا کر قبل از وقت ہی ان کی روک تھام کرنے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور حاصل شدہ ادویات کا استعمال کرکے جلد از جلد اپنے اپنے زیر کفالت لوگوں کو نجات حاصل کرا لیتی تھیں۔ مگر ایسا پہلی بار ہوتا دیکھا جا رہا ہے کہ گذشتہ سال نومبر میں ملک چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے اس وبائی وائرس نے جس طرح سے دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس سے تاریخ انسانی خالی ہے، اس لئے کہ اس کے خطرات اور اندیشوں نے ہرسطح، ہرپیمانے اور بشری ضروریات سے متعلقہ اداروں، محکموں اور شعبوں کو یکسر متأثر و معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے وہیں ایک ملک کا دوسرے ملک آمد و رفت منقطع ہے، مساجد و منادر اور دیگر معابد تک میں لوگوں کو اکٹھا اور جمع ہونے کی اجازت نہیں ہے گویا ایک طرح سے لوگوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور "لاک ڈاؤن” کی منادی کرکے جو جہاں تھا اسے وہیں رہنے کا مکلف ٹہھرا دیا۔ ایسے نازک ترین حالات میں پورے انسانی معاشرہ کا طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہونا، مختلف اقسام کی پریشانیوں سے جوجھنا اور عوام کو بنیادی ضروریات کے فقدان کا سامنا ہونا کوئی امر بعید نہیں رہ جاتا ہے۔
یہاں ہمارے لئے اصل غور کرنے والا پہلو یہ ہے کہ ہم اس عالمگیر وبا کو قدرت و فطرت سے ٹکراؤ کا نتیجہ کہیں یا پھر خدا کی طرف سے آئی ہوئی بلا تفریق نسل و دھرم اور بلاجواز علاقہ و عرفیت پوری انسانی برادری کے واسطے آزمائشی گھڑی سے اس کو تعبیر کریں اور اپنے اذہان و خیال میں یہ تصور پیدا کریں کہ: "قدرت ہم سے بےحد و انتہا ناراض ہے اور وہ بدلہ لے رہی ہے یعنی اس تمام آفت و بلا کے دور کو انتقامی کاروائی کا نام دے دیجئے” چلےگا۔
بہر حال اس عالمگیر وبا کی خوفناکی اور بلا کی خطرناکی کو تسلیم کرنا ہوگا اور یہ بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ لوگوں نے اس موقع پر یہ مشاہدہ کر لیا ہے کہ یہ آفاقی وبا جیسے جیسے اپنے دست و بازو دراز کرتی گئی وہاں کے پورے انسانی معاشرے کو دم بخود کرکے رکھ دیا اور بڑے بڑے شہروں و ترقی یافتہ ممالک کو موت و حیات کی درمیانی آغوش میں لینے کے بعد وہاں کے مکینوں اور بلند و باگ دعوے کرنے والوں کو مکمل طور پر جمود و تعطل کا شکار بنا کر رکھ دیا۔ اور ایسے تمام روشن دماغوں کی بتّی گُل کرکے رکھ دی جنہیں اپنے ناقص وہم و گمان پر ناز تھا اور وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہمارے پاس ہر مسئلہ سے نمٹنے اور ہر مشکل سے چھٹکارا پانے کا مکمل بند و بست ہے یا یہ کہ ہم نے انسانیت کو رہنے سہنے اور جینے کے نئے قالب و طرق سے روشناس کرایا؟ لیکن وہ سب آج کی اس مارا ماری اور مہاکال میں منھ لٹکائے ایک دوسرے کا تعاون کرنے اور اپنے آزمودہ نسخوں کو شئر کرنے کی باتیں اور اپیلیں کر رہے ہیں، خود سپر پاور امریکہ کی حالت اس بیماری کے بابت ناقابل بیان ہے اور وہاں کے عوام کا بھی وہی حال ہے جو دیگر متآثرہ ممالک کا ہے۔ حالانکہ یہ وہی امریکہ ہے جو اپنی ہٹ دھرمی، انانیت اور کِبر و غُرور میں ڈوبا پوری دنیا پر اپنی دادا گیری کا رعب جمانے اور آئے دن کسی نہ کسی کمزور ملک کو اپنی دھمکیوں سے زیر کرنے اور وہاں کے تمام اسباب و وسائل پر قبضہ کرنے کی مذموم حرکتیں اور سازشیں کرتا رہتا تھا، آج قدرت نے خود اس کی حالت قابل دید اور قابل رحم بنا دی ہے اور اس عالمگیر وبا و بلا نے اس کی تمام ہیکڑی اور دادا گیری کی ہوا نکال کر دنیا کے سامنے اسے آشکار کر بےعزت و رسوا کر دیا ہے۔
یہاں آکر جب ہم قدرت کے اصول و ضوابط اور انسانی معاشرے کے تئیں مرتب کردہ اس کے راہنما اصولوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ:
اس ایک معمولی "وائرس” اور نظر نہ آنے والے "جرثومہ” کے سب اتنی بڑی مقدار میں انسانی اموات کا ہونا اور بقیہ حیات لوگوں کا اپنے گھروں اور محفوظ مقامات پر خود کو سمیٹ کر حالات و مواقع کا بچشم خود مشاہدہ کرنا؛ شاید اسی لئے ہو کہ اس تمدنی دنیا میں رہائش پذیر قوموں نے ایک معبود برحق کی اطاعت و فرماں برداری سے انکار کرنے، خالقِ کائنات کی معرفت شناسی حاصل کرنے اور مالکِ ارض و سما کے احکامات کی پابندی اور تعمیل نہ کرنے میں وقت گزارا ہے بلکہ مخلوق خدا کے ساتھ اس کا جو معاملہ رہا ہے یعنی طاقت و اقتدار کے نشہ میں مست ہو کر اس نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور اپنے ڈھیٹ رویہ، بغض و عناد، تعصب و تشدد پر مبنی خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم کی اس نے جو طویل تاریخ مرتب کی ہے، یہ وقت ان سب سے باز آنے اور ایک خدا کی طاقت و قدرت کے آگے سرنگوں ہونے اور منشائے الہی کو سمجھنے کےلئے شاید موقع فراہم کرا رہا ہے۔
اتنا کچھ الٹ پھیر ہونے اور نصف دنیا کی آبادی کو حالت نزاع کی کیفیت کا نظارہ کرانے کے بعد بھی ہمارا اس بات پر یقینِ کامل ہے کہ اس میں بھی واجب الوجود ذات باری تعالی کی کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے، جو ہر ‘خیر میں شر’ اور ہر ‘شر سے خیر’ کا پہلو نمایاں کرتا ہے، آج اسی ذات نے ایک طرف پورے انسانی معاشرے کو جمود و تعطل کا شکار بنا کر لوگوں کے قلب و ذہن میں ڈر و خوف اور سراسیمگی کی ایسی لہر دوڑائی ہے جس سے ایوانِ باطل میں زلزلہ پیدا ہوا ہے اور وہ تمام طاغوتی طاقتیں اور سرکشی ذہنیت سے لیس مملکتیں جو ظلم و استبداد کی چکی میں پورے انسانی معاشرے کو پیس رہیں تھیں، انہیں قبل از وقت ہوش کے ناخن لینے اور اور اپنے ظلم و جبر سے باز رہنے کےلئے تنبیہ کی جا رہی ہو تاکہ ایک طرف معبودانِ باطلہ کی پرستش کرنے والوں کو ایک معبودِ حقیقی کی طرف پلٹنے اور ایک ذاتِ برحق کو سمجھنا آسان اور قریب تر ہو سکے اور دوسری طرف انسانی مظالم کی حد عبور کرنے والوں کو عبرت و نصیحت حاصل کرنا آسان ہو سکے۔ اس جہاں تک ہو سکے دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکمراں کا طبقہ دنیا کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود کو آئینہ کے سامنے لاکر اپنے اپنے اعمال کا جائزہ اور محاسبہ کر ہر طرح کے ظلم و تعددی سے توبہ کریں اسی میں انسانیت کی فوز و فلاح پوشیدہ ہے اور اسی میں دینا کی بقاء و سلامتی کا راز پنہاں ہے۔

0

User Rating: 5 ( 1 votes)

😃+

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

اپ یڈ بلاکر کو ہٹا کر ہمارے ویب سائٹ کو دیکھئے